وزیرستان میں بے گناہوں کا قتل عام کب تک...!
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور ملک کے عزیز کے اس وقت کے دو عہدوں پر فائز جنرل مشرف نے امریکہ کو اڈے دیے اور افغانستان میں قائم امارت تحلیل ہوگئی تو وہاں کے حکمران طبقہ منتشر ہوگیا جن میں زیادہ تر افراد نے قبائلی علاقوں میں پناہ لی ۔
پھر کچھ عرصہ بعد مذکورہ جنرل نے جنوبی وزیرستان میں غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا اور سب سے پہلا آپریشن جنوبی وزیرستان وانہ کے علاقے اعظم ورسک (کلوشہ) میں ہوا ۔
یوں مسلمان و پاکستانیوں کے درمیان آپس میں قتل غارت گری شروع ہوئی اور قبائلی علاقوں میں رفتہ رفتہ حالات امن سے بدامنی کی طرف بدلتے گئے۔
آپریشن پر آپریشن ہوتے گئے، وہاں کے رہائشی ہجرت پر مجبور ہوگئے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، گولہ باری، جٹ جہازوں کی بمباری، خودکش حملے، اغواء کاری وغیرہ روز کا معمول بن گیا تھا ۔
سن 2009 میں غالباً زرداری کے دور حکومت میں جنوبی وزیرستان کے علاقہ محسود ایریا میں "راہ نجات" کے نام سے آپریشن کا ایک بار پھر آغاز ہوا، چاروں اطراف سے آمد و رفت کے راستے سیل کرنے کے بعد حکومت نے یہ اعلان جاری کیا پورے علاقے کو خالی کریں اور کوئی بھی بندہ اس علاقے میں نہ رہے ورنہ وہ دہشت گرد تصور کرکے قتل کردیا جائے گا ۔
اس کے ساتھ ہی علاقے میں توپوں کی شیلنگ اور جگہ جگہ پر بمباری شروع ہوگئی، لوگ اس خوف و حراس کے عالم میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے۔
چونکہ چاروں اطراف سے راستے بند تھے، لوگ پیدل ہجرت کرنے لگے، صرف کچھ وقتی ضرورت کا سامان اٹھایا باقی سب کچھ جائیداد، مال و دولت، گاڑیاں اور مویشی سب کچھ چھوڑ کر سنگلاخ و بلا پہاڑوں کے ویرانیوں میں جائے پناہ میں سرگران پھرتے گئے ۔
المختصر یہ ہے کہ ان لوگوں نے تقریباً سات سال ہجرت میں گزارے، اپنے مال و دولت اور گھر بار سب کچھ قربان کردیئے، سب اس خاطر تاکہ امن قائم جائے ۔
سات آٹھ سال بعد جب حکومت نے یہ اعلان کیا کہ اب ہم نے علاقے کو کلیر کیا آپ لوگ واپس جاسکتے ہیں ۔
تو لوگ واپس اپنے علاقے میں چلے گئے، وہاں کے گھر بار اجڑے ہوئے تھے، بازاروں کا نام و نشان نہیں تھا، باغات خشک تھے، ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی، کلومیٹر در کلومیٹر چیک پوسٹ تھا... لوگ اگر ان ویران اور اُجڑے ہوئے علاقے پر غمگین بہت تھے لیکن ایک سوچ ان کو اطمینان دیتی کہ ان شاء اللہ اب تو امن ہوگا..!
لیکن کیا دکھتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ بعد وہی بدامنی شروع ہوئی، کبھی سکیورٹی فورسز پر بم دھماکہ اور اس کے بدلے بے گناہ شہریوں پر تشدد تو کبھی جانبیں کی جانب سے لگائے گئے لینڈ مائن کے دھماکے کا شکار عام معصوم بچے، بچیاں، خواتین اور عام شہری بنتے گئے ۔ اس سے بڑ کر بے گناہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ بھی عروج پر پہنچ گئی ۔
یہ سب صورت حال حکومت اور سیکورٹی فورسز کے ان کیے گئے وعدوں اور دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے..؟
مقتدرہ ادارے بتائیں کب تک وزیرستان میں بے گناہوں کا خون رائیگاں جائے گا.،
کل جنوبی وزیرستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق امیدوار ایم پی اے، "سردار نجیب محسود" کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا ۔
اس پہلے بھی اس سراروغہ کے علاقے ہی میں ایک اور شخص کو بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا ۔
سیکورٹی فورسز اور دوسرے امن قائم کرنے والے ادارے کہاں ہے..؟
خدا را ہمیں آئندہ کیلئے معاف کیجئے... 🙏
شمس الحق المسعودي
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں