محسود قوم سے اٹھنے والی تحریکات کا ایک مطالعاتی جائزہ
محسود قوم ایک جذباتی اور انقلابی قوم ہے،جہاں سے مختلف تحریکات نے جنم لیا ہے، لیکن یہ ایک مصمم حقیقت ہے کہ اس قوم نے ہر تحریک کو جذباتی طور پر تسلیم کیا ہے ،نہ کہ سوچ سمجھ کر،قطع نظر اس بات کے کہ وہ تحریک ٹھیک تھی یا نہیں!
یہ قوم جب بھی کسی تحریک کو تسلیم کرے تو تقریباً ہر گھر سے اس تحریک کو کوئی نا کوئی فرد ضرور مل جاتا ہے ،اگر باقاعدہ کارکن نہ بھی ہو تو حمایتی ضرور ہوتے ہیں۔
یہاں پر میں اُن تحریکات کا ذکر کروں گا، جن کا آغاز جنوبی وزیرستان محسود یا برکی (اورمڑ) قوم سے ہوا اور ان کو پروان چڑھایا جس کو تقریباً مجموعی طور تسلیم کرلیا تھا اور گھر گھر سے انہیں افرادی قوت مہیا کی گئی تھی، قطع نظر اس بات کے کہ وہ تحریکات ٹھیک تھیں یا نہیں!
1....روشانی تحریک:
پشتون قومی تحریک کا پہلا قدم
غوری، خلجی، سوری اور آ خر میں لودھی پشتونوں نے جب ساڑھے تین سو سالوں تک ہند پر بڑی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی تاہم چنگیز نسل بابر نے ہندوستان میں آخری لودھی سلطنت کو پارہ پارہ کردیا۔
پشتونوں کو سیاسی قوت سے محروم کرنے کے بعد یہاں کے لوگوں میں قومی شعور کو اجاگر کرنے اور اس خطے میں اپنا برم و پرتیم واپس حاصل کرنے کے لیے وزیرستان سے "روشنی تحریک" کے نام سے نئے جدوجہد کا آغاز ہوا.
اس تحریک کے بانی بایزید روشان تھے، ان کا تعلق ’اُور مڑ‘ قبیلے سے تھا۔ وہ اُس وقت کے عصری و دینی علوم سے بخوبی واقف اور فکری و علمی طور پر عالم فاضل شخصیت تھے۔کردار اور گفتار کے لحاظ سے علاقے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
با یزید روشان مغلوں کے ہاتھوں اقتدار سے محرومی اور افغانیہ یعنی پشتونخوا میں پشتونوں کی خستہ حال پر کڑھتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ سیاسی قوت حاصل کیے بغیر پشتون ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے نہیں ہوسکتے۔
پشتونوں کی اس بے بسی نے با یزید پر گہرے اثرات مرتب کیے۔انھوں نے اپنی قوم کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے سیاسی جدوجہد شروع کی۔
اپنی قوم کو سیاسی شعور دینے اور مغلوں سے پشتونوں کو اقتدار واپس حاصل کرنے کے لیے بایزد روشان المعروف پیر روشان نے مغلوں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے روشانی تحریک کی بنیاد رکھی۔
روشانی تحریک اُس نے ناصرف پشتونوں کو متحد کیا بلکہ کابل اور پشاور میں مغل حکمرانوں کو مشکلات سے دوچار کیا۔پشاور کے شمال میں اشنغر کا علاقہ روشانی تحریک کے کاروائیوں کا مرکز تھا۔
پشتونخوا کے دیگر قبائل کے ساتھ موجودہ قبائلی علاقوں کے وزیر، داوڑ، اورکزی اور آفریدی قبائل روشانی تحریک کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔
انہوں نے پشتو ادب کے لیے بھی بہت کام کیا۔پشتو کا نیا رسم الخط متعارف کر وایا اور اپنی سیاسی اور علمی کاوشوں کا فارسی، ہندی اور عربی زبان میں ترجمہ کیا۔انہوں نے تراجم کے ساتھ کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں خیر البیان، صراط توحید، حالنامہ اور مقصود المومین بہت معروف ہیں۔
بایزید کی اس سیاسی تحریک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مغلوں حکمرانوں نے تیمور نسل پیر، سید علی المعروف پیر بابا سے مدد مانگی جنہوں نے مغل حکمرانوں کو مثبت جواب دیا۔اُن کے خاص مرید پیر اخواند در ویزوہ مغل حکمرانوں کی اشیر باد سے باقائدہ روشانی تحریک کے خلاف میدان میں اتر آئے۔
فریقین کی جانب سے کئی سالوں تک کتابوں، شعر و نثر و تصوف کے زریعے مقابلہ جاری رہا۔
پیر روښان کے پاس مغل فوج کے مقابلے کا جنگی سامان نہیں تھا لیکن قومی جزبے سے سرشار یہ ہیرو کسی بھی قیمت پر دشمن کو شکست دینے کے لیے ہر محاز پر جدوجہد کرتے رہے۔
ایک مرتبہ بایزید دشمن کے مقابلے میں نکلے تو سامنے جدید ترین اسلحے سے لیس مغل فوج تھی جبکہ بایزید کے بیشتر ساتھی خالی ہاتھ تھے، کچھ کے ہاتھوں میں لکڑی کے ڈنڈے اور اس سے بھی کم لوگوں کے پاس تلواریں اور نیزے تھے۔ بایزد اور ان کے ساتھی بہادری سے لڑے اور مغل فوج کو سخت جانی و مالی نقصان پہنچایا تاہم دشمن کے مقابلے میں قلیل تعداد اور اسلحے کی کمی کے باعث بایزید روشان 56 ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔
روشانی تحریک تقریبا ایک صدی تک مغلوں حکمرانوں کے خلاف سیاسی اور مزاحمتی جدو جہد کرتی رہی.
2.. ملّا پیوندہ/آزادی تحریک:
یہ تحریک انگریز دور میں ان سامراج اور قابض افواج کے خلاف جہادی تحریک تھی، جنہوں نے برصغیر سمیت پورے خطے پر ناجائز قبضہ کر لیا تھا اور ابھی وہ قبائل اور افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، ان قابض اور استعماری قوتوں کے خلاف قبائل میں مختلف مزاحمتی تحریکات نے جنم لیا جن میں فقیر ایپی، حاجی ترنگ زئی وغیرہ اور جنوبی وزیرستان میں اس جہادی تحریک کا سربراہ مّلا پیوندہ (محی الدین) تھے گویا یہ دراصل تحریک آزادی ہند کی کڑی تھی۔اس تحریک میں اہلیاں وزیر ستان کا کلیدی کردار رہا ہے، یہ تحریک باقاعدہ محسود قوم کی ایک اجتماعی تحریک تھی.
گویا یہ ایک ضلع تحریک تھی اس تحریک کی جو پورے قبائل میں پھیلی ہوئی تھی، یہ تحریک یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ اس تحریک نے افغانستان میں بھی ایک حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔
(ملا پیواندہ اور اس کے تحریک پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں میں نے یہاں صرف ذکر ہی کیا تفصیل بیان نہیں کیا ہے.)
3...صوفیاں یا حضرات تحریک:
ایک دور میں وزیرستان کی طرف کچھ جاہل قسم کے لوگ پیروں کی شکل میں آئے، جو اپنے آپ کو پیرحضرات (حضراتون) کہا کرتے تھے، جولوگوں میں مختلف بدعات،رسومات اور شرکیات کا سبب بن گئے اور اہلیان وزیرستان نے ان جعلی پیروں کو خوب سراہا اور ان کے نام بہت ساری زمینیں اور جائیداد الاٹ کردئیے۔ کچھ مقامات پر ان لوگوں کی اس قدر عزت ہوتی تھی کہ انہیں اپنے گھروں کے اندر لے جایا جاتا، اس کے استعمال شدہ وضو کا پانی تبرک کی نیت سے استعمال کرتے تھے، (پڑدہ وے نہ جنے کولہ پہ جنے علاقی شے وہ شجونے دے پیرونے پہ پشی شے وتلے)
بہت سے قبیلوں نے اجتماعی طور ان جعلی پیروں کے نام بڑی تعداد میں زمینیں آلاٹ کردیئے.
4...أنصار الإسلام تحریک:
(نام میں کچھ تردد ہے)
یہ ایک اصلاحی تحریک تھی جو خاص کر لوگوں میں رائج غیر شرعی رواج اور لوگوں کا جعلی پیروں کے ساتھ بے عقیدت کی بنیاد پر وجود میں آئی، اس تحریک میں شامل علماء کرام نے لوگوں کے اصلاح کی حتی الوسع کوششیں کیں اور ان نام نہاد پیروں کے ساتھ دلائل پر مبنی مناظرے بھی ہوئے،آخر کار ان جاہل پیروں کو وزیرستان بدر کردیا.
علمائے کرام نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعے راہ راست کی طرف بلایا اور بڑے احسن طریقے سے انہوں نے یہ کام انجام دیا،جس سے آخر کار بدعات، رسومات اور جاہلیت پر مبنی طور طریقوں کا خاتمہ ہوگیا..
داعیان حق میں سے ایک مشہور نام گل بہادر کا بھی ہے جو اگر چہ باقاعدہ عالم نہیں تھا لیکن بدعات اور رسومات کے خاتمے میں اس کا بہت بڑا کردار ہے.. اس کا ایک جملہ "براگی آتنڑ" کے بارے میں یاد آیا جو میں نے اپنے والد صاحب سے سنا ہے:
(ویل وہ یے چہ کا پنجاپے کہ گاڈیژی خو ریپے پہ وخلی دے میژ ولہ خو پہ لایا ورتہ گاڈیژی)
بہرحال انہی علمائے کرام کی برکت سے ہمارے علاقے میں نہ کوئی شیعہ ہے نہ بریلوی، نہ اہل حدیث وغیرہ ہے. اور یہاں تک کہ پولیٹیکلی میں یہ لکھوایا کہ وزیرستان میں کوئی اور فرقہ اپنی مسجد نہیں بنائے گا.
یہ تحریک آخر میں جمعیت علمائے اسلام میں ضم ہوگئی.
3...گو خان/ٹی،ٹی،ایف تحریک:
ٹی ٹی ایف..تیمان تحریک فورس کا مخفف ہے.
یہ دور بھی بڑا قابل ذکر ہے۔
اس تحریک میں اگرچہ شامل لوگ کچھ غنڈے بھی تھے لیکن اکثریت ایسے نہ تھے ہاں چرسی، چور اور لوفر افراد زیادہ تھے، اس تحریک نے بھی قبائلی حقوق کا مطالبہ کیا تھا، خصوصاً گل یوسف یعنی گوخان کے مرنے کے بعد رضا گوخان کے دور میں اس تحریک کو بڑا پروان چڑھا اور ایک قومی تحریک کی شکل میں سامنے آیا، انتخابات میں صرف ملک یعنی سرداروں کے ووٹ کے خلاف مہم میں اس تحریک نے بڑ چڑھ کر حصہ لیا کیونکہ پہلے ووٹ صرف ملک ڈال سکتے تھے عام عوام نہیں ڈال سکتے تھے۔
اس تحریک کا اہل علاقہ پر اتنا اثر ہواکہ ہر نوجوان یہ چاہتا تھا کہ میں اس گروہ میں شامل ہوجاؤں، کثیر تعداد میں لوگ اس میں شامل ہوتے گئے۔
بالآخر اسی تحریک نے باقاعدہ انتخابات میں حصہ بھی لیا اور اس کا انتخابی نشان غالباً شیر یعنی زمارائی تھا.
ایک اشتہار جو مجھے ملا اس میں ان کے تین جلسوں کا ایجنڈا یہ تھا:
1.رزمک کیمپ میں میں صدر رضا خان کی گرفتاری
2.ٹانک اور ڈیرہ میں بے گناہ اور شریف محسود قبیلوں کے افراد نیز عرب ممالک سے دو مہینوں کی چھٹیوں پر آنے والے وزیرستانی مسافروں کی گرفتاری جن کے بچے اپنے گھروں کے دروازوں پر آنسو بہتے انتظار کررہے ہیں.
3.خرگئی کے مقام پر نصب گیٹ اندرون وزیرستان نصب کیے گئے چیک پوسٹ جن کا مطلب عوام کو لوٹنے کے سوا کچھ نہیں.
4.خاصہ دار جنوبی وزیرستان کو انتظامیہ کی طرف سے پریشانی، خاصہ داروں سے ناجائز قومی جرمانے وصول کرنا.
5.جنوبی وزیرستان میں ویش کی گاڑیاں جن کی کسٹم نہیں کی گئی، حکومت کی طرف سے ایجنسی میں گاڑی یا مالکان گاڑی کی گرفتاری کے سلسلے میں سوچ بچار اور ختمی فیصلے کئے جائیں گے، کسٹم کے بغیر گاڑی والے T. T. F سے رابطہ کریں.
6.حکومت کی طرف سے اگر کسی کے ساتھ کوئی ظلم، زیادتی ہوئی ہو، تو وہ اس جلسے میں شرکت کریں،
؛ T. T. F اس کی بھر پور مدد کرے گی..
5... قومی تحریکات:
(علاقائی طور پر قوموں کے سرکردہ شخصیات یعنی ملکان وغیرہ کے بنائے گئے مختلف تحریکات)
یہ تحریکات مختلف تحریکوں میں تقسیم ہوتے ہیں:بعض تحریکیں پوری محسود قبیلے کو شامل تھیں جبکہ بعض خاص شاخوں اور قوموں تک محدود تھیں۔
ان میں قابل ذکر تحریکات مندرجہ ذیل ہیں:
1..درے ماسید
2.چالویشتئی
وغیرہ تھیں یہ تحریکیں یا لشکر علاقائی مفادات کیلئے ہوتے تھے، مثلاً :
1..علاقے میں امن امان قائم کرنا..
2..جھگڑوں اور لڑائیوں میں ثالث کا کردار ادا کرنا
3 حکومت بھی اپنی رٹ انہی لشکروں کے ذریعے سے قائم کرتا تھا.
4.کسی غیر قوم کے ساتھ جھگڑے وغیرہ کیلئے سب قوم کو متحد اور متفق کرنا وغیرہ وغیرہ
یہ مالکان اور لشکر قوم کے حق میں جو بھی فیصلہ کرتے، سب کو وہ تسلیم کرنا ضروری تھا اور سب لوگ اس کے پابند ہوتے، خلاف ورزی کی صورت میں لوگوں کے گھر مسمار کیے جاتے اور انہیں جلا وطن کیا جاتا۔وغیرہ وغیرہ
ان تحریکوں کو لیڈ کرنے والوں میں سے مشہور نام...
گلسا خان جس نے چوروں کے خلاف لشکر بنایا تھا.
آمان الدین نے بھی اپنی قوم کے حقوق مانگنے کیلئے تحریک چلائی تھی.. جو دریمہ یعنی تیسرا حصہ سے مشہور ہے. وہ شمن خیل قوم کیلئے پوری محسود قوم کا تیسرا حصہ طلب کرتے تھے.
6...طالبان تحریک:
سویت یونین کا افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد پوری دنیا کی جہاد انڈسٹری وزیرستان منتقل ہوگئی، جس کی وجہ سے ان علاقوں پر بہت گہرا اثر ہوا۔بعد ازاں جب 11/9 کے بعد افغانستان میں قائم امارت اسلامیہ کی حکومت ختم کردی گئی تو کثیر تعداد میں مجاہدین نے ان علاقوں کا رخ کیا اور یہاں کے لوگوں نے انہیں انسانی ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کی بنا پر ہر قسم کی معاونت فرہم کی۔
جس کی بنا پر کچھ عرصہ بعد یہاں مختلف جہادی تنظیمیں وجود میں آئی، جن کا مقصد افغانستان میں امریکیوں کے خلاف جہاد کرنا تھا۔علاقے میں حالات اس وقت خراب ہوئے، جب پاکستانی فوج نے ان علاقوں میں آپریشن شروع کردیئے۔
7...محسود یا پشتون تحفظ تحریک:
قبائلی علاقوں میں جب حکومت پاکستان کی طرف سے مختلف آپریشن ہوئے اور اس سے عام شہری متاثر ہوکر دوسرے علاقوں منتقل ہوگئے،تاکہ آرام و سکون سے زندگی گزار سکے، تو ان علاقوں میں بھی لوگوں کو شکی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا اور آئے روز مختلف عسکری ایجنسیوں نے ان مہاجرین کو اٹھانا شروع کردیا، کسی کو قتل کرتے تو کسی سے تاوان مانگتے اور کسی کو لاپتہ کردیتے۔ یہ دور محسود قوم کےلئے مشکل ترین دور ثابت ہوا، جس کا درد ہر گھرانے نے محسوس کیا اور ہزاروں بے گناہ اور نہ کردہ جرائم کی سزاء پانے لگے۔
کچھ عرصہ بعد ان مظالم کے خلاف اسی علاقے سے یونیورسٹی کے کچھ نوجوان طلبہ اٹھ کھڑے ہوئے اور محسود تحفظ مومنٹ کے نام سے ایک نئی تنظیم کا آغاز کیا ۔ ان کی آواز کو زیادہ طاقت تب ملی جب نقیب اللہ محسود کی شہادت کا وقعہ پیش آیا۔ بعد ازاں جب ان مظالم کے خلاف انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو یہ تنظیم پشتون تحفظ مومنٹ میں تبدیل ہوگئی، جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔جن کی حکومت سے بنیادی طور پر پانچ مطالبات ہیں ۔
موجودہ وقت میں تقریباً ہر وزیرستانی گھر میں ان کا کوئی نا کوئی کارکن یا کم ازکم حمایت یافتہ ضرور ملتا ہے۔
اب آنے والا وقت یہ فیصلہ کریگا کہ آیا یہ تحریک ہمارے لیے آخری تحریک ثابت ہوگئی اور اس سے ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے یا پھر مستقبل میں اس سے مزید نئی تحریکات جنم لیں گی۔
موجودہ حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا کہ شاید کوئی نئی تحریک وجود میں آئے وہ تحریک کیسے ہوگا یہ وقت بتائے گا..
اپنی قیمتی رائے ضرور دیجئے گا۔
✍تحریر: شمس الحق المسعودي
نوٹ :کسی کو کسی بھی تحریک کے بارے میں تفصیلی اور پروف معلومات ہو تو ضرور شامل کیجئیے.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں